امیرُ المؤمنین حَضْرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرْتَضٰی شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم
ایک مَرتبہ امیرُ المؤمنین حَضْرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرْتَضٰی شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنے دونوں شَہزادوں حَضْرتِ سیِّدُنا امامِ حسن وحَضْرتِ سَیِّدُناامامِ حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ساتھ حرمِ کَعْبہ میں حاضِر تھے کہ دیکھاوَہاں ایک شَخْص خُوب رو رو کر اپنی حاجَت کے لیے دُعا مانگ رہا ہے ۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حُکم دیا کہ اُس شَخْص کو میرے پاس لاؤ۔ اُس شَخْص کی ایک کَروَٹ چونکہ فالج زَدَہ تھی لہٰذا زمین پرگِھسٹ کرحاضِرہوا،آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےاُس کاواقِعہ دَریافْت فرمایا تو اُس نے عَرض کی:یَا اَمِیْرَالْمُوْمِنِیْن!میں گُناہوں کے مُعامَلےمیں نِہایَت بے باک تھا،میرے والدِ مُحْترم جو کہ ایک نیک و صالِح مُسلمان تھے،مجھے باربار ٹوکتے اورگُناہوں سے روکتے تھے ، ایک دِن والِدِ ماجد کی نَصیحَت سے مجھے غُصّہ آ گیا اور میں نے اُن پر ہاتھ اُٹھادیا!میر ی مار کھا کر وہ رَنج وغم میں ڈُوبے ہُوئے حَرَمِ کعبہ میں آئے اور اُنہوں نے میرے لئے بد دُعا کردی،اُس دُعاکے اَثر سے اَچانک میری ایک کَرْوَٹ پر فالج کا حَملہ ہوگیااورمیں زمین پرگِھسٹ کر چلنے لگا۔اِس غیبی سَزاسے مجھے بڑی عبرت حاصل ہوئی اورمیں نے روروکر والدِ مُحْترم سے مُعافی مانگی،اُنہوں نے شَفقتِ پِدری سےمَغلوب ہوکر مجھ پر رَحم کھایا اورمُعاف کردیا۔پھرفرمایا:’’بیٹا چل!میں نے جہاں تیرے لیے بَد دُعا کی تھی وہیں اب تیرے لئے صِحّت کی دُعامانگوں گا۔‘‘چُنانچِہ ہم باپ بیٹے اُونٹنی پرسُوارہوکرمکّۂ مُعظَّمہ زَادَ ہَااللہُ شَرَفًاوَّ تَعۡظِیۡمًا آرہے تھے کہ راستے میں یکایک اُونٹنی بِدک کر بھاگنے لگی اور میرے والدِ ماجد اُس کی پیٹھ سے گِر کر دو (2) چَٹانوں کے دَرْمیان وفات پاگئے۔اَب میں اکیلاہی حرمِ کَعْبہ میں حاضِر ہوکر دِن رات رو رو کر خداتَعالیٰ سے اپنی تَندرُستی کے لیے دُعائیں مانگتا رہتا ہوں۔
امیرُ المؤمنین حَضْرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرْتَضٰی شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کواُس کی داستانِ عِبرت نِشان سُن کر اُس پر بڑا رَحْم آیا اورفرمایا:اے شَخْص !اگر واقِعی
BOOK NAME:FAIZAN E MAULA ALI MUSHKIL KUSHA
تمہارے والِدصاحب تم سے راضی ہو گئے تھے تو اِطمیِنان رکھو!اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سب بہتر ہو جائے گا،پھرآپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنےچندرَکْعت نَمازپڑھ کراُس کیلئے دُعائے صِحّت کی پھر فرمایا: ’’قُمْ!یعنی کھڑا ہو!‘‘یہ سُنتے ہی وہ بِلاتکلُّف اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اورچَلنے پِھرنے لگا۔ (مُلَخَّص ازحجةُ اللّٰه علَی العالمین ص۶۱۴،کراماتِ شیر خدا،ص:۷)
کیوں نہ مُشکِل کُشا کہوں تم کو
تم نے بِگڑی مِری بنائی ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بَیان کَردہ حِکایت میں ہمارے لئے عِبرت کےبے شمُار مَدَنی پُھول موجُود ہیں کہ اُس شخص کو والِدین کی نافرمانی اور گُناہوں پر ڈَٹےرہنے کی کیسی سزا ملی ، اُس کی ایک کَروٹ پر فالج کا حَملہ ہوگیااوروہ زمین پر گِھسَٹ کر چَلنے لگانیز یہ بھی مَعلوم ہُوا کہ والِدَین کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہ شَریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی حکم دِیں فوراً تعمیل کرنی چاہیےاور اُن کی بددُعا سے بھی بچتے رہنا چا ہیے اور ہراُس کام سے اِجْتناب کرنا چاہیے کہ جس میں والِدین کی ناراضی ہو۔مَزید اِس حِکایَت سے حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی کَرامَت بھی مَعلُوم ہوئی کہ جب آپ نےاُس شخص کےلئے بارگاہِ الہٰی میں دُعا کی توآپ کی دُعائے مُستَطاب (مُسْ۔تَ۔طاب) بارگاہِ الہٰی میں فوراً مُستَجاب (مقبول )ہوئی اوروہ فالج زَدَہ شَخص جو زمین پرگِھسَٹ گِھسَٹ کر چل رہا تھا، دُعائےعلی کی بَرکت سے اُسی وَقْت صحتیاب ہوکر بِلاتکلُّف چَلنے پھرنے لگا۔
بے سبب بخشش ہو میری یہ دُعا فرمایئے
مُصطَفٰے کا واسِطہ مولیٰ علی مُشکل کُشا
(وسائلِ بخشش: ۵۲۴)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
Comments
Post a Comment