فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی

خوشبوئے حیات

 



 شاق گذرا۔

اس نے امام حسن عسکری کو طلب کر کے کہا کہ اے ابو محمد اپنے جد کے کلمہ گویوں کی خبر لو، اور ان کو ہلاکت یعنی گمراہی سے بچاؤ، حضرت امام حسن عسکری نے فرمایا کہ اچھا راہبوں کو حکم دیا جائے کہ کل پھر وہ میدان میں آکردعائے باران کریں ،انشاء اللہ تعالی میں لوگوں کے شکوک زائل کردوں گا، پھر جب دوسرے دن وہ لوگ میدان میں طلب باران کے لیے جمع ہوئے تواس راہب نے معمول کے مطابق آسمان کی طرف ہاتھ بلند کیا، اچانک آسمان پر ابر نمودار ہوئے اور مینہ برسنے لگا یہ دیکھ کر امام حسن عسکری نے ایک شخص سے کہا کہ راہب کا ہاتھ پکڑ کر جو چیز راہب کے ہاتھ میں ملے لے لو، اس شخص نے راہب کے ہاتھ میں ایک ہڈی دبی ہوئی پائی اور اس سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی، انہوں نے راہب سے فرمایا کہ اب تو ہاتھ اٹھا کر بارش کی دعا کر اس نے ہاتھ اٹھایا تو بجائے بارش ہونے کے آسمان صاف ہوگیا اور دھوپ نکل آئی، لوگ تعجب میں پڑ گئے۔

خلیفہ معتمد نے حضرت امام حسن عسکری سے پوچھا، کہ اے ابومحمد یہ کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ یہ ایک نبی کی ہڈی ہے جس کی وجہ سے راہب اپنے مدعا میں کامیاب ہوتا رہا، کیونکہ نبی کی ہڈی کا یہ اثرہے کہ جب وہ زیر آسمان کھولی جائے گی، توباران رحمت ضرور نازل ہوگا یہ سن کر لوگوں نے اس ہڈی کا امتحان کیا تو اس کی وہی تاثیر دیکھی جوحضرت امام حسن عسکری نے بیان کی تھی، اس واقعہ سے لوگوں کے دلوں کے وہ شکوک زائل ہو گئے جو پہلے پیدا ہو گئے تھے پھر امام حسن عسکری علیہ السلام اس ہڈی کولے کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے(صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،کشف الغمہ ص ۱۲۹)  پھر آپ نے اس ہڈی کو کپڑے میں لپیٹ کردفن کردیا (اخبارالدول ص ۱۱۷) ۔

شیخ شہاب الدین قلبونی نے کتاب غرائب وعجائب میں اس واقعہ کو صوفیوں کی کرامات کے سلسلہ میں لکھا ہے بعض کتابوں میں ہے کہ ہڈی کی گرفت کے بعد آپ نے نماز ادا کی اور دعا فرمائی خداوند عالم نے اتنی بارش کی کہ جل تھل ہوگیا اور قحط جاتا رہا۔

 یہ بھی مرقوم ہے کہ امام علیہ السلام نے قیدسے نکلتے وقت اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ فرمایا تھا جو منظور ہو گیا تھا (نورالابصار ص ۱۵۱)۔

ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے دعائے باران کی اور بادل آیا تو آپ نے فرمایا کہ فلاں ملک کے لیے ہے اور وہ وہیں چلا گیا-

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت

امام یازدہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام قید و بند کی زندگی گزارنے کے دوران میں ایک دن  ابو الادیان سے ارشاد فرماتے ہوئے کہ تم جب اپنے سفر مدائن سے ۱۵/ روز کے بعد پلٹو گے تو میرے گھر سے شور و بکا کی آواز آتی ہوگی (جلاء العیون ص ۲۹۹) ۔

الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کوجمعہ کے دن بوقت نماز صبح خلعت حیات ظاہری اتار کر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ (صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ، فصولف المہمہ ،ارجح المطالب ص ۲۶۴ ، جلاء العیون ص ۲۹۶ ،انوارالحسینیہ جلد ۳ ص ۱۲۴) ۔

علماء فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اولاد نہیں چھوڑی (مطالب السول ص ۲۹۲ ، صواعق محرقہ ص ۱۲۴ ،نور الابصار ارجح المطالب ۴۶۲ ،کشف الغمہ ص ۱۲۶ ، اعلام الوری ص ۲۱۸) ۔

بشکریہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی ویب





آپ کے زرّین اقوال
امام حسن عسکری علیہ السلام سے کچھ احا دیث نقل ہو ئی ہیں جو مو عظہ ،ارشاد اور تہذیب نفس پر دلالت کر تی ہیں جیسے بلند ارزش وغیرہ ۔ہم ذیل میں امام سے منقول بعض روایات نقل کر رہے ہیں :
١۔امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے :''بیشک تمہاری زند گی کم ہو رہی ہے ،تمہاری زندگی کے دن گِنے چُنے ہیں ،او ر تم کو اچانک موت آجا ئے گی ،جو نیکی کا بیج بوئے گا وہ اچھا کاٹے گا ،جو شر بوئے گا اس کو ندامت ہو گی ،ہر کاشت کرنے والا وہی کا ٹے گا جو بوئے گا ،سستی کرنے والے کوکیامل سکتاہے ،جو حصہ حریص کی قسمت میں نہیں ہے وہ اس کو حا صل نہیں کر سکتا ،جس کو کو ئی خیر ملے گویا اس کو خدا نے عطا کیا ہے اور جو کسی شر سے محفو ظ ہو گیا اس کو خدا نے محفوظ رکھا ہے ''۔(٣)
٢۔ امام حسن عسکری کا فرمان ہے :'' محتاط ترین انسان وہ ہے جو مشتبہ مقامات پر رُک جائے ،بہترین عبادت گذار وہ ہے جو فرائض ادا کر تا رہے ،بہترین متقی و زاہد وہ ہے جو مطلقاً گناہ کرنا چھوڑ دے ''۔(٤)
..............
٣۔تحف العقول ،صفحہ ٥١٩۔
٤۔تحف العقول ،صفحہ ٥١٩۔
٣۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کا فرمان ہے :''اللہ تک رسا ئی کے سفر کو شب بیداری کئے بغیر طے
نہیں کیا جا سکتا ''
۔(١)
٤۔''ہمارے ساتھ رہ کر فقیر رہناہمارے دشمن کے ساتھ امیر رہنے سے بہتر ہے ''۔(٢)
٥۔بچہ کا کمسنی میں اپنے باپ پر جرأت کر نا جوا نی میں عاق ہونے کی دعوت دینا ہے ''۔(٣)
٦۔''بہت زیادہ روزے اور نماز ادا کر نا ہی عبادت نہیں ہے بلکہ اللہ کے امر کے بارے میں زیادہ غور و فکر کرنا بھی عبادت ہے ''۔(٤)

امامت کے دلائل
اللہ نے انبیاء اور اوصیاء کو معجزے عطا کئے ہیں جن کی مثال لانے سے انسان عاجز ہے ،تاکہ یہ معجزے انبیاء اور اوصیاء کے اللہ کی طرف سے ہدایت اور خیر لانے کی شہادت دیں ۔۔۔امت کی طرف آنے والے انبیاء اور اوصیاء لوگوں کے دلوں میں مخفی امور سے واقف ہوتے ہیں جیسا کہ وہ عنقریب واقع ہونے والے واقعات سے بھی آگاہ ہوتے تھے ،خداوند عالم نے ائمہ ہدیٰ کو یہ چیز عطا کی ہے ۔اُن میں سے ہر ایک کی زند گی میں یہ چیز دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ واقعات کے رونما ہونے سے پہلے اُن کی خبر دیدیا کر تے تھے ،ہم ان امورکے سلسلہ میں امام حسن عسکری سے منقول واقعات نقل کر رہے ہیں جن کی آپ نے خبر دی ہے :
١۔اسماعیل بن محمد عباسی سے روایت ہے :میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے ایک ضرورت کی شکایت کی اور قسم کھا کر کہا کہ میرے پاس ایک بھی دینار نہیں ہے ،امام نے مجھ سے فرمایا : تم خدا کی جھوٹی قسم کیوں کھا رہے ہو حالانکہ تمہارے گھر میں دوسو دینار مدفون ہیں ؟لیکن میرا یہ قول تجھ کو عطاکرنے سے نہیں رو ک سکتا ۔اے غلام تمہارے پاس کتنے دینار ہیں ؟پھر آپ نے مجھے سو دینار عطا فرمائے ۔
پھر مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا :''تم نے وقتِ ضرورت استفادہ کے لئے دینار مخفی کئے تھے ''۔
..............
١۔حیاةالامام حسن عسکری علیہ السلام ،صفحہ ٩٩۔
٢۔بحار الانوار ،جلد ٥،صفحہ ٢٩٩۔
٣۔ حیاةالامام حسن عسکری علیہ السلام ،صفحہ ٩٨۔
٤۔تحف العقول، صفحہ ٥١٨۔
اُس نے کہا :میں نے پریشا ن ہو کر انھیں ڈھونڈھا تو وہ مجھے نہیں مل سکے چونکہ میرے ایک فرزند کو
اس جگہ کا پتہ چل گیا تھا لہٰذا وہ انھیں چو ری کرکے فرار ہو گیا ''۔(١)
٢۔ابو ہاشم سے روایت ہے :میں قید خانہ میں تھا تو میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے قید خانہ کی سختیوں کی شکایت کی امام نے تحریر فرمایا کہ تم آج ظہر کی نماز اپنے گھر ادا کروگے ،چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میںقید خانہ سے آزاد ہوا اور میں نے ظہر کی نماز اپنے گھر ادا کی ''۔(٢)
٣۔ابو ہاشم سے روایت ہے کہ میں نے امام حسن عسکری کو یہ فرماتے سنا ہے : ''بیشک جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو معروف کہا جاتا ہے اور اس میں اہل معروف(نیکی کرنے والوں ) کے علاوہ کو ئی اور داخل نہیں ہو گا ، میں نے دل ہی دل میں خدا کی حمد و ثنا کی اور لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے میں جو تکلیفیں اٹھائی تھیں اُن پر خوش ہوا ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھ پر نظر ڈالی اور جو کچھ میرے دل میں تھا اُس کے متعلق فرمایا :تم نے یہ بات جان لی ہے کہ جو کچھ تم نے انجام دیا ہے ،بیشک اس دنیا میں اہل معروف ہی آخرت میں اہل معروف ہیں ،اے ابو ہاشم! خدا تم کو اُن ہی لوگوں میں سے قرار دے اور تجھ پر رحم کرے ''۔( ٣)
٤۔محمد بن حمزہ دوری سے روایت ہے کہ :میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت با برکت میں تحریر کیا کہ آپ خدا سے میرے مالدار ہونے کی دعا فر ما دیجئے ،تو امام نے جواب میں تحریر فرمایا :میں تمھیں بشارت دیتا ہوں کہ خدا تمھیں مالدار بنا دے گا ،تمہارے چچا زاد بھا ئی یحییٰ بن حمزہ کا انتقال ہو گیا ہے اُ س نے اپنے بعد ایک ہزار درہم چھوڑے ہیں اور تیرے علاوہ اور کو ئی وارث بھی نہیں ہے ، یہ عنقریب تمھیں مل جا ئیں گے لہٰذا تم خدا کا شکر ادا کرو میانہ روی سے کا م لینا اوراسراف نہ کر نا ۔۔۔''۔
کچھ مدت گذر جانے کے بعد میرے پاس مال اور چچا زا د بھا ئی کے مرنے کی خبر پہنچی جس سے میرا فقر دور ہو گیا ،میں نے حق اللہ اداکیا اور اسراف نہیں کیا ۔(٤)
..............
١۔نور الابصار ،صفحہ ١٥٣۔
٢۔اعلام الوریٰ، صفحہ ٣٧٢۔
٣۔نورالابصار ،صفحہ ٢٥٢۔
٤۔نور الابصار ،صفحہ ١٥٢۔
٥۔محمد بن حسن بن میمون سے روایت ہے :میں نے امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں
فقر و تنگدستی کی شکایت تحریر کی اس کے بعد اپنے دل میں کہا :کیا ابو عبداللہ نے نہیں فرمایا ہے کہ :ہمارے ساتھ فقر میں رہنا ہمارے دشمن کے ساتھ ثروت کے ساتھ رہنے سے بہتر ہے ''۔
امام نے جواب میں تحریر فرمایا :''خدا وند عالم ہمارے دوستوں کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اور اسی طرح جس طرح تمہارا نفس بتا تا ہے ہمارے ساتھ رہ کر غریب رہنا دشمنوں کے ساتھ رہ کر امیر رہنے سے بہتر ہے، ہم اس کے لئے پناہ گاہ ہیں جو ہماری پناہ گاہ میں آنا چا ہتا ہے ،جو ہمارے لئے بصیرت حا صل کرنا چاہے اس کے لئے نور ہیں جو ہم کو دوست رکھتا ہے وہ آخرت میں ہمارے ساتھ ہوگا اورجو ہم سے منحرف ہو جاتا ہے وہ جہنم میں جا ئے گا ''۔(١)
٦۔ابو ہاشم سے روایت ہے : میں امام حسن عسکری کی خدمت با برکت میں آپ سے نگینہ کے بارے میں سوال کر نے کی غرض سے حاضر ہوا تاکہ اس کی انگوٹھی بنا کر پہن سکوں ، میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور جس کام کے لئے آیا تھا وہ بھول گیا جب امام سے رخصت ہو کر چلنے لگا تو آپ نے مجھے انگو ٹھی عطا کی اور مسکراتے ہوئے فرمایا :''تو نے نگینہ چاہاتھا لیکن ہم نے تجھے انگوٹھی دیدی ہے، میں نے اُن سے ایسے نگینہ کے بارے میں سوال کرنا چاہا جس سے برکت کیلئے انگو ٹھی بنانا چا ہا تھا ،خدا تجھے اس کے ذریعہ برکت دے''، مجھے بہت تعجب ہوا اور میں نے عرض کیا :اے میرے سید و سردار!بیشک آپ اللہ کے ولی اور میرے امام ہیں جن کے ذریعہ میں خدا کا فضل و کرم حاصل کرتا ہوں،آپ نے فرمایا :''اے ابو ہاشم !خدا تم کو معاف کرے ''۔(٢)
یہ وہ چند واقعات تھے جن کی امام حسن عسکری نے خبر دی تھی جو امامت کی دلیلیں ہیں ،یہ بات شایانِ ذکر ہے کہ تمام ائمہ اہل بیت نفوس پر عارض ہونے والے اور دلوں میں پوشیدہ باتوں سے واقف ہوتے ہیں ،اس سلسلہ میں اخبار نقل کی گئی ہیں اللہ نے اِ ن کو ائمہ کی امامت کی دلیل قرار دیا ہے جس طرح اُس نے انبیاء اور رسولوں کو معجزے عطا کئے ہیں جن کا مثل لانے سے انسان عاجز ہیں ائمہ کے متعلق شیعوں کا یہی عقیدہ ہے اِس میں کو ئی غلو نہیں ہے اور نہ ہی دائرہ ٔ منطق سے باہر کو ئی بات ہے ۔
..............
١۔مناقب آل ابی طالب، جلد ٤، صفحہ ٤٣٥۔
٢۔اعلام الوریٰ ،صفحہ ٣٧٥۔مناقب جلد ٤، صفحہ ٤٣٧۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کا علی بن الحسین فقیہ کے نام خط
امام نے فقیہ ،عالم جلیل ابو الحسن علی بن الحسین بن مو سیٰ بن بابویہ قمی شیعوں کے عظیم الشان عالم ، علم حدیث ،علم فقہ اور دوسرے تمام اسلامی علوم میں متبحر کو ایک خط تحریر فر مایا جس میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریرہے :'' تما م تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو عالمین کا رب ہے ،عاقبت متقین کیلئے ہے ،جنت موحدین کیلئے ہے ،ظالمین کے علاوہ کو ئی دشمن نہیں ہے ،احسن الخالقین اللہ کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے ،اور درود وسلام ہو سب سے افضل مخلوق محمد اور آپ ۖ کی طیبہ و طاہرہ عترت پر ۔

اما بعد :
میں تمہیں وصیت کر تاہوں ۔اے میرے قابل احترام ،قابل اعتماد اور فقیہ ابو الحسن علی بن الحسین علی بن بابویہ قمی خدا تم کو اپنی مرضی کے مطابق کامیاب و کامران فرمائے ،اپنی رحمت اور تقویٰ کے ذریعہ تمہارے صلب میں نیک اولاد قرار دے۔نماز قائم کرو ،زکات ادا کرو ،اپنے گناہوںسے استغفار کرو ،غصہ کو پی جائو ،صلہ ٔ رحم کرو ،برادران کے ساتھ مو اسات کرو اور ان کی پریشانیوں میں حاجتیں پوری کرنے کی کو شش کرو ،ان کی جہالت و نا دانی کے مو قع پر بردبار بنو،دین میں تدبر کرو،اپنے امور میں ثابت قدم رہو ،قرآن کیلئے ان سے معاہدہ کرو ،حُسنِ خُلق سے پیش آئو ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو ،اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے : ( لاَخَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ ِلاَّ مَنْ َمَرَ بِصَدَقَةٍ َوْ مَعْرُوفٍ َوْ ِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاس)(١)،''ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میںکوئی خیر نہیں ہے مگر وہ شخص جو کسی صدقہ، کار خیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے '' تمام برائیوں سے اجتناب کرو ،تم پر نماز شب پڑھنا واجب ہے کیونکہ رسول خدا ۖ نے حضرت علی کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا ہے :اے علی تم پر نماز شب پڑھناواجب ہے (اس جملہ کی آپ ۖ نے تین مرتبہ تکرار فرمائی )اور نماز شب کو سبک شمار کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے ،میری وصیت پر عمل کرو، میرے شیعوں کو اس کا حکم دو یہاں تک کہ وہ اس پر عمل کرنے لگیں ،تم پر صبر اور انتظار فرج کرنا واجب ہے ،کیونکہ رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے :میری امت کا سب سے افضل عمل انتظار فرج ہے ، شیعہ ہمیشہ
..............
١۔سورئہ نساء ، آیت ١١٤۔
حزن و الم میں رہیں گے یہاں تک کہ میرا وہ فرزند ظہور کرے جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی ، اے میرے قابل احترام صبر کرو اور شیعوں کو صبر کرنے کامیرا حکم پہنچائو خداوند عالم کا فرمان ہے :( ِنَّ الَْرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَائُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ )،( ١ ) ''زمین خدا کے لئے ہے وہ اپنے بندوں میں جس کو چاہتا ہے وارث بناتاہے اور انجام کار بہر حال صاحبانِ تقویٰ کے لئے ہے ''ہمارے لئے اللہ کافی ہے وہ سب سے اچھا کار فرما ہے ،وہ سب سے اچھا مولیٰ اور سب سے اچھا مددگار ہے ''۔(٢)
اس خط سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں :
١۔ امام نے فقیہ معظم علی بن الحسین کے بلند مقام کی طرف اشارہ فرمایاکہ امام نے اُس کو اُن کریم صفات سے متصف فرمایا ہے جو امام کے نزدیک ان کی عظیم شان و منزلت پر دلالت کر تی ہیں ، علماء رجال اور مورخین سے روایت ہے کہ آپ بزرگ فقہاء میں سے تھے ،آل محمد ۖ کی جانب رہنما ئی کر نے والوں میں سے تھے ،امور دین کے سلسلہ میں بہت ہی غیور ،ملحدین کی بنیادوں کو نیست و نابود کردینے والے ، ارکانِ شریعت میں سے تھے ،آپ اتنے مؤثق اور بلند مقام و منزلت کے حامل تھے کہ فقہائے امامیہ آپ سے فتاوے اخذ کرتے اور جب نصوص و روایات میں اختلاف ہوتا تھا اُن ہی پر اعتماد کرتے تھے جیسا کہ اسی مطلب کا شہیداول نے کتاب ''الذکریٰ ''میں اشارہ کیا ہے ۔
٢۔امام نے اس خط میں علی بن بابویہ قمی کیلئے نیک و صالح اولاد کیلئے دعا فرما ئی ہے خدانے آپ کی دعا مستجاب فر ما ئی اور آپ کو ابو جعفر محمد فرزند عطا کیا جس کالقب صدوق رکھا گیا جو امت میں فضل کے اعتبار سے علماء مسلمین کی ایک عظیم میراث ہے ،آپ نے شریعت کو زندہ کیا ،ائمہ طا ہرین کے آثار مر قوم کئے تین سو سے زیادہ کتابیں(٣) تالیف کیں جن میں آپ کی کتاب ''من لا یحضرہ الفقیہ ''سر فہرست ہے جو
..............
١۔سورئہ اعراف، آیت ١٢٨۔
٢۔روضات الجنات ،جلد ٤، صفحہ ٢٧٣۔٢٧٤۔
٣۔روضات الجنات، جلد ٤ ،صفحہ ٢٧٦۔
بہت ہی بڑی کتاب ہے اور امامیہ فقہا ء کے نزدیک معتمد و معتبر کتاب ہے ۔
٣۔بیشک یہ خط امام کی باارزش وصیتیں ،مکارم اخلاق ،محاسن صفات ،صلۂ رحم ،برادران میں مواسات و برابری ،لوگوں کی حاجت روا ئی ،امور دین میںغور و فکر اوردیگر امور میں تلاش و جستجو کر نے کی رغبت دلاتاہے ۔
٤۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے شیعوں کو فرج اور ظہور قائم آل محمد ۖ کے انتظار کا حکم دیا ، جو مستضعفین اور محرومین کی آرزو ہیں ،جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ،اپنی حکومت کے دوران کلمة اللہ کو بلند کریں گے اور اپنے جد امجد رسول اللہ ۖ کی حکومت کو جا ری رکھیں گے ۔۔۔
یہ خط مندرجہ بالا مطالب پر مشتمل ہے ،امام نے اپنے معتمد شیعوں کے پاس متعدد خطوط تحریر کئے ہیں جن کو ہم نے اپنی کتاب '' حیاةالامام حسن عسکری ''میں تحریر کیا ہے ۔

امام حکّامِ عصر کے ساتھ
امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنی چھوٹی سی زند گی بڑے ہی اندوہ و غم کے ساتھ بسر کی ہے کچھ بادشاہ ہمیشہ اہل بیت سے جنگ و جدل کرنے کی کو ششوں میں لگے رہے ،اور انھوں نے اہلبیت کو طرح طرح کی سزا ئیں دیں، اُن میں سے کچھ بادشاہ مندرجہ ذیل ہیں :

١۔متوکل
متوکل بادشاہ نے ٢٣٢ ھ میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ،اور اسی سال امام حسن عسکری کی ولادت با سعادت ہو ئی ،متوکل کے دل میں علویوں کی دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہو ئی تھی ،انھوں نے متوکل کے دور میں بڑے ہی ظلم و جور میں زندگی بسر کی اور اُن پر متوکل سے پہلے ایسا زمانہ کبھی نہیں آیا تھا ہم ذیل میں اختصار کے طور پر اس کے بعض خصوصیات بیان کر رہے ہیں :

متوکل کی عیش پرستی
متوکل نے بڑی بیہودہ اور عبث زندگی بسر کی جس میں ذرا بھی جد و جہد نہیں تھی ،اس کی زندگی لہوولعب اور شوخیوں سے پُر تھی ،مو رّخین کا کہنا ہے :متوکل سے پہلے بنی عباس کا کو ئی بادشاہ ایسا نہیں گزرا جس کی مجلس میں متوکل کی مجلس کی طرح لہو و لعب ،ہنسی مذاق اور شوخی کا اظہار ہوا ہو۔
اس کی حقیر اور پست زندگی کی عجیب و غریب باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس نے ابوعنبس سے کہا :تم مجھے اپنے گدھے اور اس کے مرنے کے بارے میں بتائو اور وہ خواب بھی سنائو جو تم نے اس کے سلسلہ میں دیکھا ہے۔ اس نے کہا :ہاں اے بادشاہ !میں قاضیوں میں سب سے عقل مند تھا اس کا نہ کو ئی گناہ تھا اور نہ لغزش ،ایک مرتبہ اچانک مریض ہوا اور مر گیا ،میں نے اس میں سونے والے کے صفات دیکھے تو اس سے کہا : کیا میں تیرے لئے ٹھنڈا پانی اور جَوکی شراب لائوں،اور دوسرے امور انجام دوں تم اچانک کیسے مر گئے ؟ اور تمہارے پاس کیا کو ئی خبر ہے ؟اس نے کہا : ہاں ۔میں ایک دن جب فلاں فارمیسی کے پاس کھڑا تھا تو وہاں سے ایک خوبصورت گدھی گذری اس نے مجھ سے عاشقانہ باتیں کیں جس سے وہ میرے دل میں اُترتی گئی ، میں اس پر عاشق ہوگیا، مجھ پر وجد طاری ہوگیااور مجھے اسی کے حزن و الم میں مو ت آئی ہے ، میں نے اس سے کہا :اے میرے گدھے کیا تم نے اس سلسلہ میں اشعار بھی کہے ہیں ؟ اس نے کہا :ہاں تو اس نے میرے لئے یہ اشعار پڑھے :
ھامَ قلبی بِأتان
عند باب الصیدلان

تَیَّمَتنِ یومَ رُحنا
بِثنایاھاالحِسانِ

وَبِخَدَّیْنِ اَسِیْلَیْنِ
کَلونِ الشَّنُقَران

فَبِھَا مُتُّ وَلَوْ عِشْت
اِذاً طَالَ ھَوَانِْ

''دواخانہ کے پاس میرا دل گدھی پر آگیاوہ میرے دل میں اُتر گئی ۔
جس دن ہم اس کے اچھے دانتوں اور ان دو رخساروں کو لے گئے جو شنقرانی رنگ کے تھے۔
اس کے اوپر میں اپنی جان دے بیٹھااگر میں جان نہ دیتا تو میرے عشق میں اضافہ ہی ہوتا''
میں نے کہا :شنقرانی کیا ہے ؟ اس نے کہا:یہ عجیب وغریب گدھی ہے ۔متوکل خوشی سے جھوم اٹھااس نے گانے والیوں کو گدھے کے اشعار گانے کا حکم دیااور وہ اس دن اتنا زیادہ خوش ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا خوش نہیں ہوا تھااور اس نے ابو عنبس کو اور زیادہ انعام دیا۔(١)
..............
١۔مروج الذہب ،جلد ٤،صفحہ ٤٣۔
زمانے پر وائے ہو !کیا اس طرح کے حقیر اور پست انسان مسلمانوں کے والی اور حاکم ہوسکتے ہیںاور ابو محمد حسن عسکری کو حاکمیت سے دور کر دیا جائے ؟
متوکل لذتوں اور ہنسی مذاق (١)میں منہمک تھا اس کے گانے بجانے والے دو ایسے غلام تھے جو کبھی بھی اس سے الگ نہیں ہوتے تھے ،ان میں سے ایک اس کے لئے سا رنگی بجاتا تھا اور دوسرا مزمار بانسوری بجاتا تھا اور وہ سا رنگی اور بانسری کو سننے کے بعد ہی شراب پیتا تھا ۔(٢)
متوکل کی پانچ ہزار کنیزیں تھیں ۔کہا جاتا ہے :اس نے سب کے ساتھ جماع کیا تھا ۔ متوکل کے بعض حوالی و موالیوں کا کہنا ہے :میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ متوکل کثرت جماع کی وجہ سے ہی قتل کیاگیا۔(٣)
متوکل کے حوالی موالی خوبصورت کنیزوں اور شرابوں کو پیش کرکے اس سے قربت کر تے تھے ،فتح بن خاقان نے اس کو ایک خو بصورت کنیز ہدیہ میں دی ،اور دو سونے کے جام پیش کئے ،اور ایک صراحی بھی دی جس میں ایسی شراب تھی جو اُس سے پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں گئی تھی ،اور یہ ہدیہ اس کو اس کے بیماری سے صحتیاب ہونے کے بعد دیا گیا اور اس ہدیہ کے ساتھ ایک ورقہ دیا گیا جس میں مندرجہ ذیل اشعار تحریر تھے:
اِذَا خَرَجَ الاِمَامُ مِنَ الدَّوَائِ
وَاُعْقِبَ بِالسَّلَامَةِ وَالشَّفَائِ

فَلَیْسَ لَہُ دَوَائُ غَیْرُ شِرْبٍ
بِھٰذَالْجَامِ مِنْ ھٰذَالطَّلَائِ

وَفَصِّ الْخَاتَمِ الْمُھْدیٰ اِلَیْہِ
فَھٰذَا صَالِحُ بَعْدَ الدَّوَائِ

''امام جب دواء سے خارج ہو جا ئے اور صحت یاب ہوجائے تو اس کی سونے کے جام میں شراب پینے کے علاوہ اور کو ئی دواء نہیں ہے ،اور دوا کے بعداس کو تحفہ میں انگوٹھی کے نگینے پیش کرنابہت اچھا ہے ''۔
متوکل وجد میں آگیا اس نے اس کی بہت تعریف کی ،اس وقت متوکل کے پاس اُ س کا خاص طبیب یوحنا بن ما سویہ حاضر تھا، تو اس نے اس سے کہا :خد ا کی قسم یہ کا میابی میری طبابت کی وجہ سے ہو ئی ہے۔
..............
١۔بین الخلفاء والخلعاء فی العصر العباسی، صفحہ ١١٥۔
٢۔ثمار القلوب، صفحہ ١٢٣۔
٣۔مرآة الزمان، جلد ٦،صفحہ ٦٩۔
جو اشارہ بتایا گیا ہے اس کی مخالفت نہ کرنا ۔(١)
ہم نے متوکل کے شوخی اور دیوا نگی کے متعلق بہت زیادہ واقعات اپنی کتاب ''حیاةالامام حسن عسکری '' میں بیان کرچکے ہیں جو کو ئی مطلع ہونا چا ہتا ہے وہ اس کا مطالعہ کرے ۔

کھلم کھلا گناہ کرنا
متوکل متجاہر بالفسق تھایعنی وہ علی الاعلان گنا ہ کر تا تھا ،لوگوں سے کچھ شرم و حیا نہیں کرتا تھا ، قاضی احمد بن دائود نے اس سے داخل ہونے کی اجازت ما نگی تو متوکل شطرنج کھیل رہا تھا ،احمد بن خاقان نے اس کو اٹھانے کا ارادہ کیا تو متوکل نے اس کو منع کرتے ہوئے کہا :ہم اللہ سے کو ئی چیز نہیں چھپا سکتے تو بندوں سے کیا چھپائیں ۔(٢)
اس پر خواہشات نفسانی اتنے غالب آگئے تھے کہ اس کے ندماء اس کے سامنے شطرنج (٣) کھیلتے رہتے تھے اور وہ اُن کو منع نہیں کرتا تھا ،ان ہی خواہشات نفسانی کے غلبہ کی وجہ سے اس نے اپنی زوجہ ربطہ بنت الغیس سے کہا کہ وہ اپنا پردہ کھول دے اور غلمانوںکی طرح بال گوندھ لے اس نے انکار کیاتو متوکل نے فوراً اس کو طلاق دیدی۔( ٤ )وہ نہ اللہ سے وقار کی امیدرکھتاتھااورنہ ہی شعائر اسلامی کا پاس ولحاظ رکھتا تھا ۔

علویوں کے ساتھ
متوکل ذاتی طور پر علوی سادات سے بہت زیادہ بغض وعنادرکھتاتھا،اس نے ان پر ظلم وستم اوران کا قتل وغارت کرنے میںکوئی کسرباقی نہیںرکھی،ان پراقتصادی پابندیاںلگادیں،ان کے ساتھ نیکی اوراحسان کرنے سے بالکل منع کردیا،اورجب کسی سے ان کے ساتھ احسان کرنے کوسن لیتا تھا تو اس کو سخت سزادیتااوربہت سخت زیادہ ٹیکس لگادیتا (٥)مسلمین اس سرکش کی سزا کے خوف سے علویوں کے ساتھ صلہ
..............
١۔دائرہ ٔ معارف بیسویں صدی ہجری ،جلد ١٠،صفحہ ٩٦٤۔
٢۔زہر الآداب، جلد ٤، صفحہ ٣۔
٣۔بین الخلفاء والخلعاء ،صفحہ ١٠٨۔
٤۔مرآة الزمان، جلد ٦صفحہ ١٦٩۔
٥۔مقاتل الطالبین، صفحہ ٥٧٩۔
رحم کرنے سے منع کردیتے تھے ۔
اس نے علویوں پر دنیااتنی تنگ کردی تھی کہ وہ فقروفاقہ میںزندگی بسرکرنے لگے تھے اور اتنی غربت آگئی تھی کہ ان کے پاس ایک قمیص ہوتی تھی وہ یکے بعددیگرے اسی قمیص کوپہن کر نماز پڑھتے تھے اس پرپیوندلگاتے اورپھراسی کمی کی حالت میںبرہنہ بیٹھے رہتے ،(١)حالانکہ متوکل سرکش اپنی سرخ راتوں میںسونے کے لاکھوںدینارخرچ کردیتاتھا،وہ گانابجانے والوں،مخنثوں اور ہنسی مذاق کرنے والوںپر بے حساب مال ودولت خرچ کرتا تھااورخاندان رسول ۖکوایک لقمہ روٹی سے محروم کر رکھاتھا۔

متوکل کی امام امیرالمومنین سے عداوت
متوکل ،دنیائے اسلام میں حق وعدالت کا پرچم بلندکرنے والے حضرت علی سے سخت بغض وعداوت رکھتاتھا،یہ فاسق وفاجر طاغوت امام کامنکرتھا،اس نے اپنی خاطر ناچنے کیلئے اپنے بندروں اور حوالی موالیوںمیںسے ایک مخنث کا انتخاب کررکھاتھا،جو خود کو رسولۖ اللہ کے نفس اور آپ ۖکے شہر علم کے دروزاے امیر المومنین سے تشبیہ دیتاتھااوراس اداکواس کے بیٹے منتصرنے ہی متوکل کوقتل کیااوراس کی تجہیزوتکفین کی۔

متوکل کے ذریعہ امام حسین کے مرقدمطہرکاانہدام
متوکل کاسب سے بڑاجرم جوانان جنت کے سردار امام حسین کے مرقدمطہرکامنہدم کرنا تھا ، حالانکہ یہ(اس عظیم مرقدکاتمام مسلمان احترام کرتے ہیں)عظیم مرقدتمام مسلمانوںکے نزدیک محترم ہے ۔ امام کے مرقدمطہرپرمختلف ممالک کے زائرین کااژدھام رہتاہے جبکہ بنی عباس کے بادشاہوں کی قبریں زمین پرکوڑے کرکٹ کاڈھیرہیں وہ کتے اور جنگلی جانوروںکی پناہ گاہ ہیں،جوان کے ظلم وجورکی عکاسی کررہی ہیں۔
جب مسلمانوںنے امام حسین کے مرقد مطہر کومنہدم کرنے سے انکارکردیاتواس نے نجس یہودیوںکواس کومنہدم کرنے کیلئے بھیجا،اس نے سارامرقد منہدم کرکے اس پرپانی جاری کردیالیکن پانی مرقدکے اوپرنہیںگیااورچاروںطرف دائرہ کی شکل میں جمع ہوگیا،اسی وجہ سے اس کوحائرحسینی کہاجاتا ہے، ضریح مبارک سے اچھی خوشبو آنے لگی جس کے مانند لوگوںنے اس سے پہلے خوشبونہیں سونگھی تھی،بیشکیہ رسالت
..............
١۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ٥٩٩۔
اسلامیہ اور شرف وکرامت کی نسیم تھی ۔جواہری کاکہنا ہے :
شمَمتُ ثراک فھبَّ النسیم
نسیمُ الکرامة مِن بَلقع

''میں نے آپ کی تربت کوسونگھا تو نسیم معطرچلنے لگی یعنی صحرا و بیایان سے آپ کی کرامت کی معطر ہوا چلنے لگی ''۔
مسلمانوںنے متوکل کی سخت مذمت کی،مجلسوں اورجلسوںمیںاس پر سب وشتم کیا،نماز کے بعداس پربددعاکی،مکانوںکی دیواروںپراس کیلئے لعنت لکھی اوراس سلسلہ میں یہ اشعارشائع ہوگئے :
تَاللّٰہِ اِنْ کانَتْ اُمَیَّةُ قَدْ اَتَتْ
قَتْلَ ابْنِ بِنْتِ نَبِیِّھَامَظْلُوماً

فَلَقَدْ اَتاہ بَنُوْ اَبِیہِ بِمِثْلِھَا
ھٰذا لِعَمْرُکَ قَبْرُہُ مَھْدُوماً

اَسِفُوا علی اَنْ لَاْ یَکُوْنُواشَارَکُوا
فِیْ قَتْلِہِ فَتَتَبَّعُوہُ رَمِیْماً(١)

''خدا کی قسم بنی امیہ نے اگر اپنے نبی کے نواسہ کو مظلوم حالت میں شہید کرنے کا اقدام کیا ہے۔
تو اس کے خاندان کے دوسرے افراد نے اس سے پہلے اس جیسے کام کئے ہیںاور ان کی قبر آپ کے سامنے منہدم نظر آرہی ہے ۔
اُن کو افسوس ہوا کہ وہ نبی کے نواسہ کو شہید کرنے میں شریک نہ ہو سکے لہٰذا انھوں نے اُن کی اس وقت جستجو کی کہ جب اُن کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی تھیں ''۔
زمانہ گذرتاگیا،حکومتیں فناہوگئیںلیکن سیدالشہداء کی قبرآج بھی شان وشوکت کے ساتھ باقی ہے اور امت اسلامیہ کے،فخراورعزت کی نشانی کے طورپر باقی رہے گی ،جو مسلمانوں کے دلوںکو اپنی طرف مائل کئے ہوئے ہے اورآپ کی قبرکے زائرین کی تعدادبیت اللہ الحرام کاحج کرنے والوںسے کہیںزیادہ ہے ۔

امام علی نقی کے ساتھ
ہم گذشتہ بحث میںامام علی نقی کے قیدخانہ میں نظربندکئے جانے کے متعلق اورشیعوںکومالی حقوق
نہ دئے جانے کے سلسلہ میں بیان کرچکے ہیں،اس وقت امام حسن عسکری کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا، آپ نے وہ تمام آلام و مصائب برداشت کئے۔جن کو متوکل نے امام اوران کے شیعوںکی مخالفت میں جاری کیاتھا،یہاں تک کہ خدانے اس سرکش کے شر سے بندوںکونجات دی اورحکومت منتصرعباسی تک پہنچی،ہم عنقریب اس سلسلہ میں بیان کریںگے۔
..............
١۔حیاةالامام حسن عسکری ،صفحہ ٢٠٢۔

سیدنا امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ

فرزند رسول امام اہل بیت سیدنا و مولانا امام حسن عسکری رضی اللہ عنہ اہل بیت کے اماموں میں سے گیارھویں امام ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب دس واسطوں سے سیدنا و مولانا امام علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ مدینہ شریف میں دس ربیع الثانی 232 ہجری میں جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی سیدنا و مولانا امام علی نقی رضی اللہ عنہ ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمداور لقب عسکری تھا۔ دیگر القابات میں الزکی، الخاص اور السراج ہیں۔ جب سیدی امام حسن عسکری 4 ماہ کے ہوئے تو آپ کے والد گرامی نے آپ کے لیے اپنے بعد خلافت روحانی کے منصب کی وصیت فرمائی۔ آپ کے فضائل و کمالات اس قدر ہیں کہ بادشاہ وقت آپ کی شہرت سے خوفزدہ رہنے لگا اور آخر کار یکم ربیع الاول 260 ہجری میں آپ کو زہر دلوا دیا جس سے 8 ربیع الاول جمعہ کے دن شہادت پا گئے۔ آپ کا مزار مبارک عراق کے شہر سامرہ میں ہے
اللہ سبحانہ وتعالی آپ کے مزار مبارک پر کروڑو رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
وَصَلَّى اللهُ عَلٰى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ وَالنَّبَأِ الْعَظِيْمِ وَعَلٰى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَاَزْوَاجِهِ وَسَلَّمَ اَجْمَعِيْنَ



 

Comments

Popular posts from this blog

مجدد اسلام شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللّٰه علیہ

Hazrat Imam Al- Waki ibn al- Jarrah (رضی اللہ تعالٰی عنہ) teacher of The great Imam Ash-Shaafi Rehmatullah Aleyhi🌹🌺🌺 🌺🌷🌺🌷🌺🌷🌺🌷🌺