تاج الاولیاء، مجذوب زمانہ، حضرت خواجہ سید محمد تاج الدین اولیاء ناگپوری چشتی قادری رضی الله عنہ
تاج الاولیاء، مجذوب زمانہ، حضرت خواجہ سید محمد تاج الدین اولیاء ناگپوری چشتی قادری رضی الله عنہ کی ولادت 15 رجب 1277ھ کو کامٹی محلہ، کمسری بازار، ناگپور، مہاراشٹر، ہندستان میں ہوئی۔ 15 سال کی عمر میں علوم عصریہ کی تکمیل کی، مزارات کی حاضری آپ کا مشغلہ تھا، مدتوں گمنام جنگلوں میں ریاضت الہی میں مشغول رہتے۔ آپ کی پوری زندگی تبلیغ دین اور خلق خدا کی خدمت میں گزری۔ 26 محرم الحرام 1344ھ بروز پیر وصال فرمایا۔ مزار شریف ناگپور، مہاراشٹر، ہندستان میں زیارت گاہ خلائق ہے۔ (گلدستۂ اولیاء، بابا تاج الدین)
Taaj al-Awliya, Majzoob of Era, Khwajah life. [Guldasta-e-Awliya, Baba Tajuddin]
گوالہ زندہ ہوگیا:
گلا ب سنگھ نے نانا تاج الدین ؒ کی چائے کے لئے ایک بھینس کادودھ وقف رکھا تھا۔ اکثر خود ہی دودھ لے کر آتا اور چھان کر جوش کر نے کے لئے رکھ جاتا۔ وہ سن ۱۱ سے یہ خدمت انجام دیتاتھا۔ سن ۱۷کی برسات میں ایک صبح دودھ نہیں آیا۔
نانا نے دن چڑھے تک انتظار کرنے کے بعد حیات خاں سے کہا ۔"کیا آج چائے نہیں ملے گی۔"
حیات خاں نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔"میں تو بہت سویرے سے گلاب سنگھ کا انتظار کر رہاہوں۔ معلوم نہیں کیا بپتا پڑ گئی۔ ابھی تک وہ دودھ نہیں لایا۔ حکم ہوتو بازار سے لے آؤں۔"
نانا بگڑ کر بولے ۔"پھر تونے اس کی خبر کیوں نہیں لی؟ جا کے آ۔" حیات خاں گاؤں کی طرف دوڑا۔ گاؤں میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر گلاب سنگھ کی ارتھی پر پڑی۔ لوگ کریاکرم کے بندوبست میں لگے ہوئے تھے۔ اس میں ایک آواز سنی۔ بابا صاحبؒ کا گوالہ مرگیا۔
حیات خاں پریشان ہوکر الٹے پاؤں دوڑا۔
نانا تاج الدینؒ راستے میں اس کا انتظار کر رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر گلوگیر آوازمیں بولا۔"گلاب سنگھ مر گیا۔"
نانا یہ سن کر گاؤں کی طرف چل پڑے۔ حیات خاں اور چند آدمی ان کے ساتھ تھے۔ آنکھوں سے جلال برس رہاتھا۔ ارتھی کے قریب پہنچ کر انہوں نے پکارنا شروع کیا۔"گلاب سنگھ، گلاب سنگھ۔"
بہت غصہ میں ہجوم سے بولے۔"اسے کھول دو ، یہ زندہ ہے۔"
اس کے بھائی نے دوڑ کر ارتھی کی دوریاں کاٹ ڈالیں۔ آن کی آن میں گلاب سنگھ اٹھ کر بیٹھ گیا۔
دوسرے دن گلاب سنگھ حسبِ معمول دودھ لے کرآیا تو لوگوں نے اسے گھیر لیا اور سوالات کی بوچھار کردی۔
اب سنئے گلاب کی کہانی اس کی اپنی زبانی۔
"بوندوں میں بھیگنے سے مجھے تپ چڑھ گئی۔ بدن جلنے لگا۔ کچھ لوگ اڑتے ہوئے آئے اورمجھے اس دنیا سے دوسری دنیا میں لے گئے۔ میں کئی گھنٹے تک ایک ہرے بھرے میدان میں گھومتا رہا۔ اس کے دوراستے تھے۔ ایک راستے کانٹے دار جنگل میں گم ہوگیا اور دوسرے راستے میں آبادیاں تھیں۔ چلتے چلتے میں ایسی جگہ پہنچاجہاں بہت سی عدالتیں لوگوں سے بھری پڑی تھیں۔ انہی عدالتوں میں اونچی کرسی کی ایک عمارت دیکھنے میں آئی۔ جس کے دروازے بڑے بڑے تھے۔
میں نے دیکھا باباصاحبؒ ایک دروازے میں کھڑے کچھ سوچ رہے ہیں۔ پھر وہ محراب کی طرف بڑھے۔ یہاں تخت پر دو جگ کے تاج دار انبیاء کے سردار (صلی اﷲ علیہ وسلم )تشریف رکھتے تھے۔بابا صاحبؒ تخت کے سامنے ٹھہر گئے۔ اورسرجھکاکر درخواست کی۔
میرے آقا، گلاب سنگھ کی واپسی کاحکم دیا جائے۔
نہیں بارگاہِ نبوی سے ارشاد ہوا۔
بابا صاحبؒ پھر سوچ میں پڑگئے۔ چند منٹ بعد ہونٹوں کو جنبش دی۔
اگر یہ درخواست قبول نہیں ہو سکتی تو غلام حضور کے بخشے ہوئے پیرہن کا مستحق نہیں۔ یہ کہہ کر باباصاحبؒ کرتہ اتارنے لگے۔
سرورِ کونین علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے ایک نظر دیکھ کر فرمایا۔
"گلاب سنگھ ، تم جا سکتے ہو۔"
Comments
Post a Comment